کراچی سے لاہور پہنچ کر پسند کی شادی کرنے والی دعا زہرہ کو اندرون پنجاب سے بازیاب کرالیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق دعا زہرہ اور ظہیر کو سی آئی اے پولیس نے تحویل میں لیا۔ دونوں کو چشتیاں سے ٹریک کرکے پکڑا گیا، جس کے بعد انہیں لاہور منتقل کردیا گیا ہے۔ لڑکے اور لڑکی کو آج بروز اتوار 5 جون کو سندھ پولیس کے حوالے کیا جائے گا۔ دعا زہرہ اور ظہیر چشتیاں میں چھپ کر رہ رہے تھے۔
سندھ پولیس کے مطابق دعا زہرہ کے شوہر کو بھی حفاظتی تحویل میں لیا گیا ہے۔ دونوں کو قانونی تقاضوں کے بعد کراچی لایا جائے گا۔ واضح رہے کہ سندھ پولیس نے دعا زہرہ کی بازیابی کیلئے وزارت داخلہ سے مدد مانگی تھی۔
دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ نے بھی دعا زہرہ کو 10 جون کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔ آئی جی سندھ نے وفاقی وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا کہ سندھ ہائیکورٹ نے دعا زہرہ کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ خط میں کہا گیا تھا کہ لڑکی کی بازیابی کے لئے آئی جی پنجاب کو سندھ پولیس کی معاونت کی ہدایت کی جائے۔
کراچی سے مبینہ طور پر لاپتہ ہونے والی دعا زہرا کی والدہ نے کہا تھا کہ جس دن سے اُن کی بیٹی گھر سے گئی ہے، اُنہوں نے بیٹی کی الماری کھول کر نہیں دیکھی۔
سوشل میڈیا پر دُعا زہرہ کی والدہ کے انٹرویو کا ویڈیو کلپ وائرل ہورہا ہے جس میں اُنہوں نے کہا کہ یقین کریں جب سے میری بیٹی گئی ہے، میں نے اُس کی الماریاں کھول کر نہیں دیکھی کیونکہ جب دُعا کے کپڑے دیکھتی ہوں تو مجھے اُس کے واپس آنے کی اُمید ہوتی ہے۔
دُعا زہرہ کی والدہ نے ظہیر احمد کے اہل خانہ سے اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ اللّہ کے واسطے میری بیٹی کو چھوڑ دیں، آپ ہم سے دور چلے جائیں گے، ہم آپ کو کچھ نہیں کہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ہم بہت اذیت میں ہیں، ایک ماں کی بددعا نہیں لیں اور ہمیں ہماری بچی واپس دے دیں۔
اس سے قبل دعا زہرہ اور اس کے شوہر ظہیر کے سیالکوٹ میں ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔
پس منظر
واضح رہے کہ دعا زہرہ کراچی کے علاقے ملیر کی رہائشی ہے، جو 16 اپریل کو لاپتا ہوئی تھی جس پر لڑکی کے گھر والوں کا کہنا تھا کہ دعا کو اغوا کیا گیا ہے۔ دعا کے والدین کی جانب سے پولیس سے بھی مدد لی گئی تھی۔ واقعہ کے بعد دعا زہرہ کا ہیش ٹیگ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ رہا۔ اور ملک کی اہم شخصیات کی جانب سے دعا زہرہ کی بازیابی کیلئے اپیل کی گئی۔
بعد ازاں دعا کا ویڈیو پیغام اور نکاح نامہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔ اس کے علاوہ دعا زہرہ اور ظہیر نے مقامی عدالت میں ہراسمنٹ پٹیشن بھی دائر کی، جس کے مطابق ان کا نکاح 17 اپریل کو ہوا جب کہ پٹیشن 19 اپریل کو دائر کی گئی۔ کراچی پولیس نے لاہور پولیس کے ساتھ دعا زہرہ کا نکاح نامہ شیئر کیا تھا جس کے بعد لاہور پولیس نے اس سلسلے میں تحقیقات شروع کیں۔
نکاح نامے پر موجود ایک گواہ اصغر علی ہے جس کی رہائش حویلی لکھا کی بتائی گئی تھی، پولیس نے اس سراغ کے ذریعے اوکاڑہ پولیس سے رابطہ کیا تو اوکاڑہ پولیس نے حویلی لکھا سے اصغر علی کو حراست میں لے لیا۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہےکہ اصغر علی سے تفتیش کی گئی تو اس نے بتایا کہ دعا اور اس کا شوہر ظہیر دونوں اس کے پاس یہاں آئے تھے اور اب یہاں سے جاکر پاکپتن میں موجود ہیں۔
پولیس ذرائع کےمطابق اصغر علی کے بیان پر پولیس نے پاکپتن پر ایک زمیندار کے گھر پر چھاپہ مارا جہاں سے دعا اور اس کے شوہر ظہیر کو تحویل میں لے لیا۔ اوکاڑہ پولیس نے لڑکی کا ویڈیو بیان بھی لیا جس میں اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے گھر سے آئی ہے۔
ویڈیو پیغام
ویڈیو پیغام میں دعا زہرہ نے کہا ہے کہ میرے گھر والے زبردستی میری شادی کسی اور سے کروانا چاہتے تھے، مجھے مارتے پیٹتے تھے، مجھے کسی نے بھی اغوا نہیں کیا، میں اپنی مرضی سے گھر سے آئی ہوں اور اپنی پسند سے ظہیر سے شادی کی ہے۔ دعا کا مزید کہنا تھا کہ میں گھر سے کوئی قیمتی سامان ساتھ نہیں لائی ہوں۔
انہوں نے کہا کہ میرے اہل خانہ میری عمر غلط بتارہے ہیں، میں 14سال کی نہیں بلکہ بالغ ہوں، میری عمر 18سال ہے، میں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور کسی نے مجھ سے زور زبردستی نہیں کی، میں اپنے گھر میں خاوند کے ساتھ بہت خوش ہوں اور خدارا مجھے تنگ نہ کیا جائے۔
خیال رہے کہ دعا زہرہ 21سالہ ظہیر احمد کے حق میں بیان حلفی بھی دے چکی ہیں، بیان حلفی میں دعا زہرہ نے 17 اپریل کو ظہیر احمد سے نکاح کا دعویٰ کیا تھا۔
والدین کا مؤقف
نکاح نامہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے دعا کے والدین کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی کی عمر 18 سال نہیں ہے بلکہ وہ 27 اپریل کو 14 سال کی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ سرٹیفکیٹ میں بتائے گئے دولہا ظہیر احمد سمیت دیگر ناموں سے وہ واقف نہیں ہیں اور اس کے ساتھ انہوں نے دستاویزات کے حقیقی ہونے پر بھی سوال اٹھایا۔
دعا کے والد کا کہنا تھا کہ لاہور میں ہمارا کوئی رشتہ دار نہیں ہے اور یہ بھی نہیں جانتا کہ میری بیٹی کیوں اور کیسے وہاں پہنچی۔
پولیس حکام کا کہنا تھا کہ دعا کے اغوا کی تفتیش انسداد تشدد سیل منتقل کردی گئی ہے، جس گلی سے دعا کو اغوا کیا گیا ہے وہ بہت تنگ ہے۔ کراچی میں اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے دعا زہرہ کے والدین کا کہنا تھا کہ میں اللہ کا شکر ادا کروں گا کہ مجھے 10 روز کے بعد مجھے میری بیٹی دیکھی ہے اور وہ حیات ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میری بیٹی پر تشدد کر کے اس سے بیان دلوایا جارہا ہے، اس نے یہ بیان بھی دیا ہے کہ ہم نے اسے اغوا کیا ہے اور اس پر تشدد کرنے کی کوشش کی ہے، پورے محلے سے گواہی لی جاسکتی ہےکہ ہمارے گھر سے کبھی کسی تشدد یا لڑائی جھگڑے کی آواز تک نہیں آئی۔
دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی نے بختاور بھٹو کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے میرے لیے آواز اٹھائی اور کہا کہ ایک کم عمر بچی کا نکاح اغوا کے زمرے میں آئے گا۔
18 اپریل کو لاہور جاکر دعا اور اس کے شوہر کو دھمکانے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا، میں 18 اپریل سے یہی ہوں، پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون کر رہا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مجھے گھر کا پتا معلوم ہوتا تو میں اکیلا وہاں جانے کے بجائے پولیس کو لے جاتا ۔
لڑکی کے والد کا کہنا تھا کہ ظہیر نامی لڑکے نے گیم ‘کلیش این کلیم’ کے ذریعے میری بیٹی کو ٹریپ کیا اور اس سے رابطہ کیا، اگر یہ پسند کا معاملہ ہوتا تو کوئی بھی لڑکا کم از کم ایک بار تو گھر میں رشتہ بھیجتا، لیکن یہ رشتے والا معاملہ ہی نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ گیم میں موجود کالنگ ہسٹری سے معلوم ہوا کہ لڑکی کا ظہیر نامی شخص سے رابطہ ہوا ہے، اس سے کبھی کوئی ایسی خواہش ظاہر نہیں کی کہ میں اس لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔
انہوں نے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور آئی جی سندھ سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بچی کو کراچی لائیں اور شہلا رضا کے حوالہ کریں، مجھے ان پر مکمل اعتماد ہے، اس کے واقعے کی تحقیقات کرے، تاکہ وہ سچائی سامنے آسکے۔
from Samaa - Latest News https://ift.tt/agvAOh2
No comments:
Post a Comment