ہمارے ملک میں انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں انسانی زندگیوں کا ضیائع نئی بات نہیں، تاہم ہر بار طریقہ واردات اکثر واقعات میں مختلف نکلا ہے، کبھی اچھی جاب، تو کبھی اچھے پیسوں کی لالچ میں یہ انسانی اسمگلر انسانیت بیچ اور زندگی تباہ کر ڈالتے ہیں۔
ان فریبیوں اور سفاک کارندوں کے ہاتھوں اکثر لوگ موت کی وادی تو اکثر لوگ جیتے جاتے مر جاتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ میں مردوں اور عورتوں کی شرح کا اندازہ لگانا ہو تو اس کیلئے کوئی مخصوص طریقہ کار یا ضابطہ ہی نہیں۔ تاہم ایک اندازے کے مطابق مردوں سے زیادہ خواتین اس جہنم کی نذر ہوتی ہیں، کچھ اپنی مجبوریوں اور ضررتوں کے باعث تو کبھی جبراٍ اس بھٹی میں جلا دی جاتی ہیں۔

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق پاکستان انسانی اسمگلنگ کے لیے ایک ذریعہ، راہدری اور منزل کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔

پاکستان میں گزشتہ چار سالوں کے دوران ملک بھر سے انسانی اسمگلنگ کے 80 ہزار سے زائد واقعات سامنے آئے ہیں اور متاثرین میں بیشتر خواتین اور بچے ہیں۔ اس بات کا انکشاف ملک میں انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے قانون نافذ کرنے والے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حکام کی جانب سے کیا گیا ہے۔
پاکستان سے دنیا بھر میں ہونے والی انسانی اسمگلنگ کوئی نیا موضوع نہیں۔ لیکن، گزشتہ چند دہائیوں سے اس میں بتدریج اضافہ دیکھا جارہا ہے۔
حکام کے مطابق، پاکستان سے اسمگل کی جانے والی لڑکیوں کو عام طور پر زبردستی شادی، جنسی استحصال، گھریلو کاموں کے لیے غلام بنائے جانے سمیت دیگر مقاصد کے لئے اسمگل کیا جاتا ہے۔ تاہم، ان کے بارے میں حقائق جمع کرنا بے حد مشکل کام ہے۔ ان اسمگلرز کا شکار ہونے والی خواتین کی عمریں 2 سے 50 سال کے درمیان دیکھی گئی ہیں۔
انسانی اسمگلنگ کے واقعات سامنے آنے کی وجوہات کیا ہیں؟
ماہرین کے خیال میں انسانی اسمگلنگ ایک پیچیدہ معاشرتی مسئلہ ہے، جس میں کئی عوامل کا عمل دخل ہے اور پاکستان جیسے ملک میں اس کی بنیادی وجہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، معاشی سست روی اور غیر محفوظ سرحد ہے۔ جس سے انسانی اسمگلرز کا کام کافی آسان ہوجاتا ہے۔ پاکستان کئی دہائیوں سے معاشی عدم استحکام کا شکار ہے، جبکہ غربت کی شرح زیادہ اور انسانی معیار زندگی کے لحاظ سے بھی اس کا شمار دنیا کے پست ممالک کی فہرست میں ہوتا ہے۔

مردم شماری کے مطابق ملک کی آبادی 22 کروڑ سے متجاوز کر گئی ہے۔ اس طرح یہ ملک دنیا کے گنجان ترین 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہے، جبکہ آبادی میں نوجوانوں کی شرح 60 فیصد کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔
غربت زدہ علاقوں سے نوجوانوں کو بہتر مستقبل کی لالچ دے کر ملک سے باہر بھیجا جاتا ہے اور یہیں سے اس مکروہ کاروبار کا آغاز ہوتا ہے۔ منظم گروہ لوگوں سے اُن کی جمع پونجی حاصل کر کے غیر قانونی راستوں کے ذریعے پاکستان سے ایران اور پھر وہاں سے ترکی کے راستے یورپ میں داخل کراتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، انسانی اسمگلرز کے گروہ اتنے مُنظم طریقے سے کام کرتے ہیں کہ وہ پاکستان سے یورپ تک کے زمینی راستے کے سفر میں آنے والے ممالک میں قانون نافذ کرنے والے اکثر اداروں کے اہلکاروں سے ساز باز کر کے اُنہیں یورپ تک بھیجنے میں باآسانی کامیاب ہو۔

پاکستانی اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟
انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے ملکی قانون کمزور دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان نے مسئلے کی سنگینی کے پیش نظر 2018 ہی میں انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے دو نئے قوانین متعارف کرائے ہیں۔ جن میں سے ایک انسداد مہاجرین ایکٹ 2018، جب کہ دوسرا انسداد انسانی اسمگلنگ ایکٹ 2018 ہے۔
ان دو قوانین کے علاوہ پاسپورٹ ایکٹ 1974، ایمیگریشن آرڈیننس 1979، فارنرز ایکٹ 1946، انسداد انسانی اسمگلنگ ایکٹ 2002 اور دیگر متعلقہ قوانین بھی اس ضمن میں موجود ہیں۔
ان قوانین کی روشنی میں ملک سے انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کو جرم ثابت ہونے پر 14 سال قید تک کی سزائیں رکھی گئی ہیں، جبکہ انسانی اسمگلنگ پر نظر رکھنے اور اس جرم کی سرکوبی کے لیے ’اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سیل‘ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔ ایف آئی اے نے انتہائی مطلوب انسانی اسمگلرز کی ایک فہرست بھی تیار کی ہے جو ایجنسی کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔

اس فہرست میں متعدد خواتین بھی شامل ہیں۔ جو اس غیر قانونی کاروبار میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلوب ہیں۔ ایف آئی اے کے اعداد و شمار کے مطابق، انسانی اسمگلنگ کے جرم میں مطلوب افراد کی ’ریڈ بک‘ میں شامل 80 سے زائد اسمگلرز کا تعلق پنجاب، 50 کا اسلام آباد، سندھ سے 30 اور بیرون ملک ملزمان کی تعداد 40 ہے۔ صرف یہ ہی نہیں ایف آئی اے نے گزشتہ چار سالوں کے عرصے کے دوران 30 انتہائی مطلوب افراد کو گرفتار کیا ہے جن کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں۔
بلوچستان
انسانی اسمگلر اندورون اور بیرون ملک لوگوں کو اچھے مستقبل کے جھانسے اور پیسوں کا لالچ دے کر منزل سے پہلے ہی ان کی منزل گل کردیتے ہیں۔ اکتوبر سال 2017 میں بلوچستان کے علاقے تربت میں ہونے والا واقعہ ہی لے لیں۔ جہاں انسانی اسمگلروں نے 19 جیت جاگتے زندہ انسانوں کو اپنی حواس اور لالچ کے باعث موت کے گھاٹ اتار دیا۔
اس پر ستم بالا ستم یہ کہ مرنے والوں میں پانچ بیسٹ فرینڈز بھی شامل تھے، جنہوں کی موت کی وادی کی جانب ایک ساتھ سفر کا آغاز کیا، اس بات سے کجا کہ انجام کتنا بھیانک ہوگا۔ انسانی اسمگلنگ میں جہاں مردوں کا استحصال ہوتا ہے، وہی عورتوں کے اوپر بیتنے والے مظالم بھی کسی طور کم نہیں، مجبور عورتوں کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ ایجنٹز اکثر اوقات نوکریوں کے بہانے خواتین کو دیگر ایجنٹس کے ہاتھوں بیچ دیتے ہیں، جو انہیں جسم فروشی جیسے گھناؤنے دھندے یا پھر جبری اجرت یا گھروں میں کام کرنے والی مائیوں کے طور پر ٹھیکے پر چڑھا دیتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں بڑے پیمانے پر جسم فروشی کے دھندے میں ملوث تعداد ان خواتین کی ہیں، جو باعث مجبوری اس گندگی میں پھنسی، جہاں وہ نہ جیتی ہیں نہ مرتی ہیں، بلکہ دن میں کئی کئی بار سولی پر چڑھتی ہیں۔ انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں رسوا ہونے والوں میں ایک بڑی تعداد ان کم سن اور کم عمر گھریلو ملازماؤں کی بھی ہے، جو خود یا اپنے گھر والوں کے ذریعے ان ایجنسیز یا ایجنٹس کو بیچ دی جاتی ہیں۔
سرحدی مسائل
سابق ایف آئی اے افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہم سے گفتگو میں بتایا کہ ملکی سرحدی علاقوں میں موجود چیک پوسٹوں میں ایسے ایماندار افسران اور اہلکار موجود ہوں، جو پیسے لے کر انسانی اسمگلروں کو راستہ نہ دیں، بلکہ انہیں گرفتار کر کے ان کے خلاف قانونی کارروائی کریں۔
سابق افسر کے مطابق بڑے شہروں میں لوگوں کو بیرون ملک بھیجنے والے ان ایجنٹوں پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے، جو کئی جگہوں پر کسی لائسنس کے بغیر دھڑلے سے کام کررہے ہیں۔
اُن کے مطابق اگر کچھ لوگوں کو گرفتار کیا بھی جاتا ہے، تو ان کے خلاف مقدمہ اتنا کمزور بنایا جاتا ہے یا پھر شہادتیں اکھٹی نہیں کی جاتیں، جس سے وہ قانون کی گرفت سے نکلنے میں باآسانی کامیاب ہوجاتے ہیں۔
پنجاب اور بلوچستان اور اندرون سندھ کے علاقے اس وحشی، درندہ صفت انسانی اسمگلروں کیلئے جنت تصور کیے جاتے ہیں۔ جہاں ہم بلوچستان کو کراس بارڈر انٹیلی جنس ایجنسیوں کا مرکز قرار دیتے ہیں، وہی پاکستانی صوبہ بلوچستان انسانی اسمگلروں کیلئے ایک ٹرانزٹ پوائنٹ سے کم نہیں جہاں کے بارڈر ایریا سے وہ خود تو نکل جاتے ہیں، تاہم خواب دیکھنے والی دیگر آنکھوں کو ہمیشہ کیلئے موند دیتے ہیں۔
خوش قسمتی یا بد قسمتی کہیں کہ بلوچستان کا بارڈر اومان، ایران، افغانستان اور اس سے آگے مشرق وسطی تک باآسانی رسائی کا ذریعہ ہے۔ اکثر انسانی اسمگلر لوگوں کو ایران اور پھر ایران کے راستے ترکی اور یورپ تک بھی لے کر جاتے ہیں۔
ایرانی راستہ
ایران کا طویل بارڈر،سب سے بڑا چور رستہ بن چکا ہے جہاں یورب جانے کیلئے ایران اور پھر ترکی کے راستے کنٹینرز اور کشتیوں کے ذریعے یورپی ممالک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایرانی سرحد خاص کر ایرانی شہر تفتان غیرقانونی طور داخلے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ یہاں سے اکثر و بیشتر ایرانی سیکیورٹی فورسز، انسانی اسمگلرز میں پھنسے لوگوں کو نکال کر پاکستانی لیویز کے حوالے کردیتے ہیں۔
ایسے واقعات ہر روز پیش آتے ہیں اور اب تک انگنت افراد کو تفتان سے گرفتار کرکے لیویز کے حوالے کیا جاچکا ہے۔ غیرقانونی طورپرایران میں داخل ہونے کی اصل وجوہات یہ ہیں کہ انسانی اسمگلرز لوگوں کو ایران سے ترکی اور پھر یونان کے راستے یورپی ممالک بھیج دیتے ہیں اور اس کام کے لئے وہ لاکھوں روپے کماتے ہیں۔
پاکستان میں انسانی اسمگلرز بھی ملک کے لئے مسلسل درد سر بنے ہوئے ہیں ۔ بیشتر بے روزگار افراد اسمگلرز کا آسان ہدف ہوتے ہیں کیوں کہ انہیں بیرون ملک جاکر کمانے، دولت جمع کرنے اور جائیداد بنانے کے سنہری خواب دکھائے جاتے ہیں۔
کبھی پاسپورٹ دفاتر کے باہر دھول مٹی اور دھوپ میں کھڑے لوگوں کی لمبی لمبی قطاریں دیکھیں تو لگتا ہے کہ یہ ایک منظم قوم کے وہ باشندے ہیں،جو بیرون ملک جانے کیلئے ہر قانونی چارہ جوئی پوری کرنا اولین ذمہ داری سمجھتے ہیں، تاہم اس کے برعکس روشن مستقبل اور معاشی بہتری کے سہانے خواب آنکھوں میں سجائے بیرون ملک جانے کے خواہشمند نوجوان اکثر ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں،جو انھیں بھاری رقم کے عوض بہتر مستقبل کا خواب دکھا کر بیرون ملک بجھوانے کا جھانسہ دے کراپنے جال میں پھنسالیتے ہیں۔
اگر کوئی ایسا ہی شاطر وزٹ ویزہ پر دبئی چلا جاتا ہے وہ واپس آتے ہی سب کو بیرون ملک بجھوانے کا دھندہ شروع کر دیتاہے۔ ورک پرمٹ پر بیرون ملک جانے والے افراد کی اکثریت دیہات اور قصبوں سے ہوتی ہے اور دیہاتی لوگ اپنی محدود سوچ اور سادگی کی وجہ سے شہر میں کسی رجسٹرڈ ادارے کی بجائے علاقے کے افراد کے ذریعے جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

سابق برٹش ہائی کمشنر کے مطابق ویزوں کے نام پر ہونے والے فراڈ میں پاکستان کا نام نمایاں ہے اسی لیے برطانوی ویزہ کیلئے آنے والی ہر درخواست کو تسلی سے چیک کیا جاتا ہے۔ دیگر مما لک میں بھی پاکستانیوں کیلئے ویزہ کا حصول مشکل سے مشکل ترہوتا جا رہا ہے۔
ایسے فراڈ، جعل سازوں اور ایجنٹز کو روکنے کیلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ملک کے اندر ہی ایسے مواقع پیدا کرے، کہ ہماری نوجوان نسل ملک اور اپنوں سے دور نامناسب حالات اور کٹھن زندگی گزارے بغیر ہی عزت اور سکون سے پیسے کما سکیں۔ سما
from Samaa - Latest News https://ift.tt/eblHhKZ
No comments:
Post a Comment